Orhan

Add To collaction

پہلی نظر

پہلی نظر از قلم امرین ریاض قسط نمبر 15

پھر مریام شاہ اپنے منصوبے کے مطابق جونیجو بن کو نُور حویلی گیا اور کُچھ ہی دنوں میں وہ اپنی زہانت کا استمال کرتا اُسکا خاص آدمی بن چُکا تھا عامرہ خاتون اور کبیر امجد کو اپنے نقلی والدین بنائے اور جس گھر میں وہ رہ رہے تھے مریام جانتا تھا یہاں خُفیہ کیمرے لگے ہوئے ہیں اس لیے وہ مریام شاہ کو اپنا سب سے بڑا دُشمن ظاہر کرتا تھا جس سے بدلہ لینے کی خاطر وہ قادر بلوچ سے ملا تھا تا کہ انکی باتیں سُن کر بلوچ کو بھی یقین ہو جائے۔ اُسی پلان کے تحت اب لوگوں نے نتاشا خان کو ڈیل کر کے بلوچ کے پاس بھیجا تھا وہ ایک کوٹھے والی تھی جسے پیسے سے مطلب تھا اُسکا کام بلوچ کے موبائل تک رسائی اور اُس کے اندر وہ ڈیوائس فٹ کرنا تھا جس کے زریعے مریام شاہ اُسکی ہر کال کو پر نظر رکھ سکتا تھا۔ مریام شاہ شہر بلوچ کے کام سے آتا تھا مگر گاڑی بدل کر وہ اپنے آفس چلا جاتا جہاں اُسامہ نے جب اُسے جونیجو کے شہر آنے کی اطلاع دی تھی تو مقصد یہ تھا کہ مریام شاہ کو جوبیجو بن کر کیا کرنا ہے اور اُسامہ کو مریام شاہ بن کر کونسا عمل کرنا ہے۔ مریام شاہ نے اپنے پلان کے مُطابق اُس رات ٹرک میں سامان لوڈ کرواتے ہوئے سُلطان سے بمب بھی فٹ کروایا تھا تبھی بلوچ کی کال آئی جسے مریام شاہ نے زہر بھری مُسکراہٹ سے پک کیا۔ "کام ہو گیا جونیجو۔۔۔۔۔"بلوچ کی تشویش زدہ آواز اُس کے کانوں میں پڑی۔ "یہی سمجھے ہو گیا جس طرح کام کیا ہے کوئی مائی کا لال بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔۔۔۔۔۔"بلوچ سے بات ختم کرکے مریام شاہ نے موبائل جیب میں رکھا اور سگریٹ کا لمبا سا کش لے کر سُلطان کو ٹرک سے پھلانگنے کا اشارہ کیا سُلطان سر ہلاتا ٹرک سے اُتر کر دور جھاڑیوں میں کھڑی اُسامہ کی گاڑی میں بیٹھ گیا تبھی ایک زوردار دھماکہ ہوا اور سب جل کر راکھ ہو گیا جب فارم سے لیاقت اور شمشاد بھاگتے ہوئے تو اس نے جان بوجھ کراُسامہ کو اُنکے سامنے آنے کا اشارہ کیا۔ "میں نے کیا یہ سب۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ کی بات پر وہ دونوں چونک کر پلٹے مگر وہ مریام شاہ سے صرف نام کی حد تک واقف تھے اس لیے مریام شاہ نے اُنکو سُنانے کے لیے اپنا نام مُنہ سے نکالا تا کہ وہ جا کر مریام شاہ کا نام ہی بلوچ کے آگے لیں۔ "تُم دونوں اس آگ کو بُجھانے کی کوشش کرو میں بلوچ کے پاس جا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے اُنکو کہا اور گاڑی میں بیٹھ کر اُسامہ کو کال ملا دی۔ "میں نے ایکٹنگ کرنے کا کہا تھا ایسی اوور ایکٹنگ نہیں مسٹر اُسامہ شاہ۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ جس نے اُسکی باتوں کو بڑی مُشکل سے برداشت کیا تھا چبا کر بولا تو دوسری طرف اُسامہ قہقہ لگا گیا۔ "یہ اوور ایکٹنگ نہیں تھی بلکہ سو فیصد تُمہاری کاپی تھی یار تم اس کے بجائے کہ مُجھے شاباش دو اُلٹا طنز کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔" "جب ملو گئے نہ تو دو لگا کر شاباش دُونگا فضول آدمی۔۔۔۔۔۔"کہہ کر اُس نے کال کاٹ دی۔ "یہ تُمہارا کھڑوس بھائی کبھی خُوش نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔۔"اُسامہ نے جل کر بُرہان سے کہا جو قہقہ لگا کر سر ہلا گیا۔

"_________________________________"

"ایک اور ہار ایک اور ناکامی اُس مریام شاہ کے ہاتھوں۔۔۔۔۔۔۔"جب مریام نے آ کر بلوچ کو بتایا تو اُسکی تڑپتی حالت کو مریام شاہ نے بہت سکون سے انجوائے کیا تھا۔ "ابھی تو شُروعات ہے بلوچ ابھی سے ہارنے لگے وہ دل ہی دل میں بولتا بظاہر اُسکا غم ہلکا کرنے لگا۔ پھر اُسی رات وہ کال پر اُسامہ سے مخاطب تھا۔ "میرے خیال میں اب ہمیں بلوچ کا اعتماد اور جیتنے کے لیے نتاشا خاں کو اس ڈرامے سے کٹ کر دینا چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔" "ٹھیک ہے جیسے تُم کہو۔۔۔۔۔۔" "بُرہان سے کہو مُجھے تُمہاری اور نتاشا خان کی پک واٹس ایپ پر کرے۔۔۔۔۔۔" اب وہ بلوچ کا نمبر ملا کر اُس سے بات کرنے لگا۔ "بلوچ سائیں مُجھے بہت بڑی بات پتہ چلی ہے جس سے میرا ابھی آپ سے ملنا بہت ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ جانتا تھا وہ اس وقت نُور حویلی ہے اس لیے وہ جان بوجھ کر بولا تھا تا کہ وہ اُسے وہاں آنے کی اجازت دے اور پھر اُسکی سوچ کے عین مطابق بلوچ نے اُسے وہاں بلوا لیا تھا بُرہان نے تصویر واٹس ایپ کر دی جسے ساتھ لیے وہ نُور حویلی آیا جہاں قدم رکھتے ہی اُس نے پرخہ کو دل میں پُکارا۔ "صرف چند قدموں کا فاصلہ رہ گیا ہے پرخہ تُم تک پہنچنے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔" قادر بلوچ کو نتاشا کی اصلیت بتاتا وہ بہت حد تک اُسکا اعتبار حاصل کر گیا تھا وہاں سے اُٹھتے ہی اس نے بُرہان کو میسج کیا۔ "نتاشا کو اب بلوچ کی پہنچ سے دُور رکھنے کا کام تُم دونوں کا ہے،گُھمن آ رہا اُسے لے کر۔۔۔۔۔۔۔"

"__________________________________"

مریام شاہ بلوچ کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہو چُکا تھا اس لیے بلوچ نے اسے نُور حویلی کی سیکیورٹی کی نگرانی سونپ دی تھی مریام شاہ نے تمام کیمروں کا کنکشن اپنے موبائل سے کنکٹ کر لیا تھا وہ سب سیٹ کرتا ٹیرس پر آیا تو اُسکی نگاہ کی گرفت میں ایک گلابی آنچل آیا تھا وہ غور سے اُس لڑکی کو دیکھنے لگا جس پر اسے پرخہ کا گمان ہوا تھا جب پرخہ نے اُسکی طرف چہرہ کیا تو مریام شاہ کا دل دھڑکنا بند ہو گیا۔ "پرخہ۔۔۔۔۔۔۔"وہ زیر لب بولا جو اپنی پُشت پر اسکی نظروں کا احساس کرتی بار بار اسے دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی اور پھر وہ ساری رات سو نہ پایا تھا پرخہ کو قریب سے دیکھنے کی خواہش زور پکڑتی چلی گئی آخرکار بے بس ہو کر وہ اُس رات اُسامہ اور گُھمن کی مدد سے پرخہ کے کمرے تک پہنچ گیا تھا۔ دوسری طرف گُھمن جو بلوچ کے اُوپر نظر رکھے ہوئے تھے اُس دن راٹھور کو وہ دیکھ تو نہ پایا تھا مگر اُسکی آواز بُرہان تک پہنچا دی تھی جسے سُن کر اور ایس پی سی ملی انفارمیشن سے وہ اپنا ٹارگٹ مکمل کر چُکا تھا اب مریام شاہ نے اُسے دوسرا ٹارگٹ دیا تھا جس میں وہ جگو بن کر ایاز بلوچ کے ٹھکانے تک گیا تھا تا کہ اُس کے اسمگلنگ کے دھندے پر نظر رکھ کر لڑکیوں کو بچا سکے اس لیے جان بوجھ کر اُس دن ہوٹل میں بُرہان نے ایاز بلوچ کو اپنی طرف راغب کیا۔ مریام جو اپنے موبائل سے تمام کیمرے کنکٹ کر چُکا تھا پرخہ کے مُنہ سے سجاول کا گھٹیا پن اور پرخہ کی آنکھوں سے نکلتے آنسوؤں کو دیکھ کر اُسکا خُون کھول اُٹھا تھا اس لیے گُھمن کو لے کر وہ سجاول کو مارنے کواٹروں کی طرف بڑھ گیا۔ "اُسامہ علینہ کو بھیج دو،میں اب اور رسک نہیں لے سکتا پرخہ کے معاملے میں۔۔۔۔۔۔"اُسامہ کو کہہ دیا جس نے اگلے دن ہی علینہ کو نمل بلوچ کی دوست بنا کر بھیج دیا تھا علینہ امتل کے سوالوں سے بچتی نمل کے کمرے میں آئی جہاں پرخہ چائے لیے بیڈ کے پاس کھڑی تھی۔ "ہائے میں امتل کی فرینڈ ہوں۔۔۔۔۔"علینہ نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے پرخہ کے نزدیک آئی۔ "میم آپ یہ چائے مُجھے دیں اور پلیز میرے لیے ایک گلاس پانی لا دیں۔۔۔۔۔۔۔"علینہ کے میم کہنے پر پرخہ حیران ہوتی باہر چلی گئی۔ "نمل یوں پریشان ہونے کی اب کیا ضرورت جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا۔۔۔۔۔۔"کہتے ہوئے علینہ نے اُسکے مُنہ پر رومال رکھ دیا تھا اگلے پل ہی وہ ایک سائیڈ کی طرف لڑھک گئی علینہ بھاگ کر نسیماں بیگم اور امتل کو بُلا لائی اور پھر وہ نمل کو لے کر ہاسپٹل چلے گئے۔ "میں تو دلاسہ دے رہی تھی پر نمل دل پر زیادہ لے گئی۔۔۔۔۔"علینہ افسوس سے کہتے ہوئے اُٹھ کر اُسکے پیچھے گئی اور رومال اُسکے مُنہ پر رکھتی وہ اُسے بھی سائیڈ پر لگانے لگی ایسے ہی اُس نے شہباز بلوچ کے ساتھ کیا۔ "سر میم۔۔۔۔۔۔"علینہ نے مریام شاہ سے اجازت چاہی تو اُس نے سر ہلا دیا علینہ پرخہ کی تلاش میں کچن میں گئی وہاں پرخہ کو بیہوش کیا جسے مریام شاہ نے اپنے باذؤؤں میں اُٹھاتے ہوئے حویلی کے پیچھلے دروازے سے گُزرتے ہوئے بُرہان کی گاڑی میں ڈال دیا۔ "بُرہان تُم اپنی بھابھی کو لے کر جاؤ یہاں سے،اُسامہ اور علینہ آ جائیں گئے۔۔۔۔۔۔" "اوکے بگ برو۔۔۔۔۔"بُرہان نے کہتے ہوئے گاڑی وہاں سے نکال لی۔ "صندل بُوا کو سب سمجھا کر علینہ کے ساتھ بھیج دیا ہے،کیمرے بند تھے اب وہ آن کرنے لگا ہوں تُم جاؤ اپنی جگہ پر۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ واپس آیا تو اُسامہ کے کہنے پر وہی صوفے کے پاس کھڑا ہوا کہ اُسامہ نے اُس کے سر پر ڈھنڈا دے مارا اگلے پل ہی وہ بیہوش ہو چُکا تھا اُسامہ وہاں سے بھاگ آیا۔

"_________________________________"

"بگ برو کل رات وہ لوگ لڑکیاں اسمگلنگ کرنے لگے ہیں میں نے نمرہ اور آسیہ کو اُن لڑکیوں کے درمیان بھیج دیا ہے اب نیکسٹ کیا کرنا ہے۔۔۔۔۔۔"بُرہان نے مریام شاہ کو کال ملائی۔ "سب سے پہلے تو اس ایاز بلوچ کو اُوپر پہنچاؤ تب تک میں اور گُھمن وہاں جا کر اُن لڑکیوں کو آزاد کرواتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے کہہ کر کال بند کر دی۔پھر جب اُس نے سب کو آزاد کروا کر گُھمن اور بُرہان کے ساتھ بھیج دیا اور خُود کمرے میں آیا تو پیچھے کھٹکے کی آواز پر مریام شاہ نے مُڑ کر دیکھا۔ "جونیجو۔۔۔۔۔"وہ امجد تھا ایاز بلوچ کا خاص آدمی۔ "مُجھے بلوچ نے بھیجا ہے لیکن یہاں تو کوئی نہیں کہاں ہیں سب،آج رات تو لڑکیاں اسمگلنگ ہونی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ گھبرایا نہیں تھا پورے اعتماد سے بولا تو امجد نے پسٹل نیچے کر لیا۔ "جونیجو وہ تو مریام شاہ اور اُس کے گارڈذ سب برباد کر کے چلے گئے،ایاز سائیں کو بھی مار دیا۔۔۔۔۔۔"امجد کے بتانے پر اُس نے اپنے چہرے پر حیرت بھرے تاثرات لائے تھے۔

"_________________________________"

بُرہان نے بلوچ کی کال ٹریس کرتے ہوئے مریام شاہ کو باخبر کیا تھا کہ وہ مریام شاہ کی موت کا پلان بنا کر بیٹھے ہیں اس لئے مریام شاہ نے اُس دن پرخہ کے سامنے لفظوں ہی لفظوں میں اُسے محتاط رہنے کو بولا تھا مگر جب وہ شاپنگ پر گیا تو اُسامہ کو بھی ساتھ لے گیا جس سے آغا نے اُسامہ کو ہی مریا شاہ سمجھ کر گولی چلا دی مریام شاہ کے اعصاب کو جھٹکا لگا تھا وہ سیدھا اُسے ہسپتال لایا اور مریام شاہ کے نام سے ہی اُسے ایڈمٹ کروایا۔ وہ ہسپتال سے نکلتا سیدھا گھر آیا جہاں پرخہ اُسکا انتظار کر رہی تھی مریام شاہ اُس کے گیلے بالوں کو دیکھ کر لب بھینچ گیا۔ "اتنی دیر کہاں لگا دی شاہ۔۔۔۔۔۔" "وہ اصل میں اُسامہ کو بہت تیز بُخار ہو گیا ہے سعدیہ خالہ بھی اسلام آباد اس لیے مُجھے اُس کے پاس رُکنا ہوگا۔۔۔۔۔۔" "اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسے افسوس ہوا۔ "اگر میں دو دنوں کے لیے اُس کے فلائٹ پر چلا جاؤں تو تم ناراض تو نہیں ہو گی نہ۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام نے اُسکے ہاتھ لبوں سے لگا لیے۔ "ارے اس میں ناراض ہونے والی کونسی بات ہے اُسامہ بھائی کو آپکی ضرورت ہے کیا میں بھی چلوں آپ کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔" "نہیں تُم یہی رہو،بس پُول کی طرف جانے سے پرہیز کرنا اوکے بائے۔۔۔۔۔۔"وہ اسکا سر چُوم کر واپسی کو ہو لیا۔ بُرہان کو آغا کے پیچھے لگوا کر وہ خُود نُور حویلی آیا تھا جہاں سازش سے قادر بلوچ کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر وہ سیدھا اپنے خُفیہ ٹھکانے پر آیا تھا۔ "تو کیسا لگا سپرائز مائے ڈیر سُسر جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بلوچ سے بولا جو ہکا بکا اُسکی طرف دیکھ رہا تھا۔

   0
0 Comments